Thursday , December 7 2023

خاندانی منصوبہ بندی نہ کرنے کا نتیجہ، ہر سال 22 لاکھ اسقاطِ حمل

امریکی تحقیقاتی ادارے گٹ میچر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 42 لاکھ حمل میں سے تقریباً نصف حمل غیر متوقع ہوتے ہیں جس میں سے 54 فیصد یا 21 لاکھ سے زائد حمل ضائع کردیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ سے زائد خواتین اسقاطِ حمل کرواتی ہیں کیوں کہ مذہبی رہنما فیملی پلاننگ کے طریقوں کی مخالفت کرتے اور اور ملک میں مانع حمل طریقوں تک رسائی مشکل جبکہ جنسی معاملات کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایسے ہی دو راستے پشاور کی غربت اور صحت کے مسائل کا شکار غریب خاتون زمینہ کے سامنے موجود تھے، ایک یہ کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر خفیہ اسقاطِ حمل کروالے یا دوسرا کہ اپنے شوہر کے چھٹے بچے کو جنم دے کر زندگی کا خطرہ مول لے اور بالآخر اس نے پہلا راستہ چن لیا۔

چنانچہ اب 20 کروڑ 70 لاکھ کی ملکی آبادی سے وسائل کی گنجائش میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے جبکہ ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ مستقبل میں مزید پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہا جائے۔

زمینہ نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے کہا کہ ’وہ جب بھی شوہر سے خاندانی منصوبہ بندی کرنے کا کہتی وہ انکار کردیتے، اور جب میں انہیں اپنی صحت کی خرابی کا بتاتے ہوئے کہا کہ میں مزید بچے پیدا نہیں کرسکتی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر میری ماں 9 بچے پیدا کرنے کے باوجود نہیں مری تو تم بھی زندہ رہو گی‘۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اسقاطِ حمل کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب ماں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو، لیکن بہت سے ڈاکٹر اپنے ضمیر کے تحت ایسا کرنے سے انکار کردیتے ہیں

جس کے نتیجے میں خواتین کو غیر قانونی طریقوں سے اسقاط حمل کروانا پڑتا ہے جبکہ حکام نے اس حوالے سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

اس سلسلے میں جسم میں مائزوپروسٹل نامی دوا داخل کرنے کے طریقے پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے جو السر کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، اس سے ایمبریو (جو بچہ ابھی مکمل بنا نہ ہو) باہر آجاتا ہے لیکن اس سے ماں کی صحت کو شدید قسم کی پیچیدگیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

اس ضمن میں ’اویئر گرل‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کام کررہی ہے جہاں ان افراد کو معلومات فراہم کرتی ہے جو اس کی ہاٹ لائن ہر کال کر کے اس قسم کی ادویات کے محفوظ استعمال اور ایمرجنسی یا پروفیشنل مدد کب لی جانی چاہیے کہ بارے میں مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم قیمت ہونے کے باوجود محض 35 فیصد پاکستانی خواتین مانع حمل طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔

About

Skip to toolbar