خونی امریکی جرنیل اور اسلامی ممالک
مظفر جنگ
مشہور رومن فاتح جولیس سیزر نے کہا تھا کہ ’’ میں آیا، میں نے دیکھا، میں نے فتح کر لیا‘‘ ۔جب امریکی صدر بارک اوباما نے 2011 میں لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کو گرایا تو اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بڑے فخر سے اس مشہور مقولہ کو تھوڑا سے تبدیل کر کے کہا تھا کہ ’’ہم آئے، ہم نے دیکھا اور وہ مر گیا ‘‘۔
ہیلری کے اس دعویٰ کو ایک دیوانے کی بھڑک ہی کہا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور بہترین فوج کے باوجود افغانستان، عراق ، لیبیا سمیت کہیں بھی فیصلہ کن فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اگر ہم جولیس سیزر کے مقولہ کو زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’ہم آئے، ہم نے دیکھا، ہم ناکام رہے‘‘۔
جنگیں خطرناک، تباہ کن اور غیر متوقع ہوتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگیں کہاں جا کر ختم ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہونے کے باوجود جنگوں میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پایا۔
امریکی جرنیلوں کے نزدیک جنگ میں ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی
جنرل ڈیوڈ پیٹرس جنہیں میڈیا ’’کنگ ڈیوڈ‘‘ کے القاب سے پکارتا تھا اپنی جنگی مہارتوں اور فلاسفی کے باوجود افغانستان میں مقررہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اس وقت وہ شدید تنقید کے نشانے میں آگیا جب اس نے کچھ خفیہ کاغذات اپنی سوانح زندگی لکھنے والے کو سپرد کر دئیے۔ اگر دیکھا جائے تو جنرل ڈیوڈ پیٹرس ان خوش قسمت فوجیوں میں سے تھا جو نہ صرف ویت نام کی جنگ میں محفوظ رہا بلکہ اس نے دہشتگردی کے خلاف بہترین ٹکنیک بھی سیکھی تھیں۔
اسکینڈل کے باوجود جنرل ڈیوڈ پیٹرس ان چند با اثر لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی رائے کا واشنگٹن اور پینٹاگون میں احترام کیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ 2011 میں فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان لوگوں میں ہیں جو امریکی جنگوں کو نہ صرف جاری رکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ان کا حلقہ وسیع بھی کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ ’’ غالباً مسلم انتہا پسندوں کے خلاف جنگ کا خاتمہ ہماری زندگیوں میں ممکن نظر نہیں آ رہا بلکہ یہ نسلوں تک چلنے والی جنگ ہے جس کے لیے مسلسل عزم کی ضرورت ہے۔‘‘
جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے خیالات جان کر ہمیں دوسری جنگ عظیم کے مشہور جرنیل جارج ایس پیٹن کی یاد آجاتی ہے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا خون جوان اور جراٗت بے مثال تھی جبکہ اس کے فوجی از راہ تمسخر کہا کرتے تھے ’’خون ہمارا ‘‘ اور جراٗت جرنل صاحب کی‘‘۔ جب جنرل ڈیوڈ پیٹرس جنگوں کی بات کرتا ہے تو ایک بنیادی سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ان جنگوں میں خون تو بیچارے امریکی فوجیوں کا بہنا ہے۔
جب جنرل ڈیوڈ پیٹرس سے پوچھا گیا کہ 18 سالوں کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکا تو وہ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنگ سے نکلنے کی حکمت عملی نہیں واضح کی تھی اور ہماری یہی کوشش رہی کہ ہمارا کم سے کم مالی اور جانی نقصان ہوتا۔
جنرل پیٹر س ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کے حق میں نہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء شروع کر دیا جائے۔ اس کے خیال میں ایسے کرنے سے عراق کیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں، امریکہ جب پیچھا ہٹا تو داعش بڑی تیزی سے ایک وسیع علاقے پر قابض ہو گئی اگر یہی عمل افغانستان میں دہرایا گیا تو طالبان اور داعش وہاں پر بھی وسیع علاقے پر قابض ہو کر اپنی اسلامی ریاست کا اعلان کر سکتے ہیں۔
جنگ صرف اسلامی انتہا پسندوں تک محدود نہیں رہی بلکہ جنرل ڈیوڈ پیٹرس دیگر بہت سارے جرنیلوں کی طرح ایک نئی سرد جنگ کی ابتداء کرنا چاہتا ہے۔ان کے خیال میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو اصل خطرہ ان بکھرے ہوئے اسلامی انتہا پسندوں سے نہیں بلکہ چین اور روس سے ہے
اسی طرح امریکی فوج کے دو سینئر جرنیل مارک ملی اور رے او ڈیرنو امریکہ کی مستقبل جنگوں کا خاکہ بنانے میں مصروف ہیں ۔ جنرل مارک ملی اگلے چیئرمین جوائینٹ چیف مقرر ہو جائیں گے۔ا نہوں نے حال ہی میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے باوجود جنگوں مین فیصلہ کن فتح حاصل نہیں ہوتی اور جو یہ سمجھتے تھے کہ ایک مختصر جنگ سے ہم فتح پا سکتے ہیں وہ خود فریبی کا شکار ہیں۔
جنرل رے او ڈیرنو جنہوں نے 55 مہینے عراق میں گزارے ہیں ان کے مطابق امریکی فوجیوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور ہم اب پہلے سے زیادہ پھرتیلے اور خطرناک بن چکے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی جنگ جیتنے کی گارئنٹی نہیں ہوتی اور جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ فوج کو مفتوح علاقے کے ماحول اور سیاسی اور سماجی رد عمل کے متعلق مکمل آگاہی ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا اگر زمینی حقائق بدل جائیں تو فوجی حکمت عملی بھی بدلنا پڑتی ہے۔
یہ فوجی جرنیل امریکہ کو نہ ختم ہونے والی جنگوں میں جھونکنا چاہتے ہیں جس کا انت سوائے امریکہ کی بربادی کے اور کچھ نہیں ہے۔
کاپی رائٹس.
مشہور صحافی، کالم نگار، مورخ اور مصنف مظفر جنگ کے مضامین ،تجزیے، خبریں اور کالم کسی طور پربھی ، دوسری جگہ پر شائع نہیں کیے جاسکیں گے، خلاف ورزی پر قانونی کاروائی کا حق رکھتے ہیں
Muzaffar Jang is a senior and seasoned journalist working in English and Urdu newspapers and publications. He may be reached at his email address: alijournalist@hotmail.com or at his whatsapp no : 0304-0040462