Thursday , December 7 2023

افغانستان میں ایران اور طالبان کا گٹھ جوڑ اور امریکی پراکسی وار

تحریر

مظفر جنگ

انسان نے سائنس کے میدان میں ان گنت ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر کوئی مشترکہ بھائی چارہ قائم نہیں ہو سکا. ہر ملک اپنی طاقت اور اسطاعت کے مطابق اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے. ماضی میں ہم اکثر دیکھتے تھے کہ کوئی بھی عالمی طاقت اپنے عزائم کے حصول کے لیے مخالف ملک پر فوج کشی کر دیتی تھی لیکن وقت کے ساتھ آلات جنگ اور حربی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں آتی چلی گئیں. آج کے جدید دور میں زیادہ تر ممالک اپنے مفادات کے لیے “پراکسی وار” میں ملوث ہو چکے ہیں اور اس پراکسی وار سے براہ راست کسی ملک میں حملہ کئے بغیر ہی قومی سلامتی اور طویل مدتی مفادات حاصل کئے جاتے ہیں. عمومآ طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی طاقتور ملک کسی بھی خاص علاقے یا زون میں باہمی مفادات کے حصول کے لیے کسی دوسرے ملک یا غیر ریاستی عناصر سے گٹھ جوڑ کر لیتا ہے. اس طرح کی پراکسی وار میں کسی طرح کا بھی کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ پورے خطے کو عدم استحکام میں دھکیل دیتا ہے. یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ کسی بھی طاقتور ملک کو نا ختم ہونے والی جنگوں میں الجھا دیتا ہے جس سے افرادی قوت اور وسائل کا بے دریغ نقصان ہوتا ہے.

پراکسی وار سے ملک توڑے جاتے ہیں اور وہاں کی عوام کو جہنم میں دھکیل دیا جاتا ہے. پراکسی وارکا ایک سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ غیر ریاستی عناصر کو جب اسلحہ، افرادی قوت اور پیسہ دیا جاتا ہے تو وہ بہت مضبوط ہو جاتے ہیں حتکہ پراکس وار ختم ہونے کے بعد بھی ایسے خطوں میں تشدد اوربدامنی دیر تک قائم رہتی ہے اور یہ بھی ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا ہتھیار ایسے عناصر کے قبضے میں نہ چلا جائے جس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو جائے.

پورے مغربی ایشین خطے میں ایران نے اسلامی انقلابی گارڈ کور کی مدد سے پراکسی نیٹ ورک قائم کر لیا ہے. یہ اتنا موثر اور طاقتور ہو چکا ہے کہ پوری دنیا‌ میں حربی علوم کے ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے. خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے. ایران، شام، اردن کے بعد ایران نے اپنی “قدس فورس” کی مدد سے افغانستان میں بھی مظبوط اڈے بنا لیے ہیں.
ایران کی افغانستان کے وسطی اور شمالی خطے میں افغان شیعہ اقلیت ہزارہ کے ساتھ نسلی ، لسانی اور مذہبی مباشرت مشترک ہے۔
تاریخی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو 1857 کے پیرس معاہدے کے بعد ایران نے ہرات پر اپنے تاریخی دعویٰ کو ترک کر دیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر تھا اگراس کی سرحد کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو افغانستان میں فوج بھیجنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ایک طرف ہم دیکھتے ہیں ایران کی افغانستان کے بارے میں جوپالیسی ہے وہ کافی حد تک بے رحمانہ ہے لیکن اس کے ساتھ افغانستان کی بدلتی جیو پولیٹیکل حالت اور سیکیورٹی ماحولیاتی نظام میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے ایران کی حکمت عملی میں لچک بھی موجود ہے.
اس کی مثال ایسے بھی دی جا سکتی ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین باہمی تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں لیکن جب 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایران نے امریکہ کو جہاں خفیہ معلومات دیں بلکہ زمینی جنگ کے لیے افرادی قوت بھی دی. اگرچہ تجزیہ نگاروں کو یہ کہنا تھا کہ ایران کی امریکہ کو یہ حمایت طالبان کی طرف سے شعیہ کمینوٹی پر حملوں اور مزار شریف میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے نتیجے میں تھی.
امریکہ ایرانی اتحاد افغانستان میں اس وقت ختم ہو گیا جب امریکی صدر بش نے ایران کو “برائی کا محور” قرار دے دیا.

اسلامی انقلابی گارڈ کورایک نظریاتی مذہبی فوج ہے جس کا واحد مقصد ایرانی مذہبی حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور دوسرے ملکوں میں ایرانی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری “قدس فورس” کے سپرد ہوتی ہے. افغانستان میں بدلتی صورتحال کی وجہ سے قدس فورس اور طالبان ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں اور اس کی دو بنیادی وجوہات ہے. پہلی مسالکی اختلافات کے باوجود دونوں گروہ یہ مانتے ہیں کہ ان کا دین کا ماخذ ایک ہی ہے اور دوسری وجہ دنوں کا مشترکہ دشمن امریکہ ہے لہذا دونوں کے درمیان اتحاد اگر فطرتی طور پر دیر پا نہیں تو وقتی ضرورت ضرور ہے.
اپنی خصوصی قدس فورس کے ذریعے آئی آر جی سی نے افغان طالبان کو کافی ہتھیار ، دھماکہ خیز مواد ، سڑک کے کنارے نصب بم فراہم کیا ہے۔ آئی آر جی سی کے پاس اس طرح کے غیر متوقع اتحاد کے پیچھے انتہائی دور اندیشی اور حکمت عملی ہے۔ ایک تنقیدی نظریے نے اس حقیقت کی طرف راغب کیا ہے کہ اگرچہ یہ اپنی مشرقی سرحد پر ایک مخالف حکومت کے خلاف ہے ، لیکن یہ اتحاد اسلامی جمہوریہ کے لئے کئی طرح سے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے.
یہ اتحاد ایران کو ہرات میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی طالبان کا تشدد جاری ہے اور اس سے خلیج کے وسطی ایشیاء اور مشرق بعید کے ساتھ نقل و حمل کے رابطے کے لئے اسٹریٹجک فائدہ حاصل ہوگا۔
طالبان کی گورننگ کونسلوں یا شوریٰ میں سے ایک ایرانی صوبے خراسان رضوی کا مشہد شوریٰ ہے ، جسے ابتدائی طور پر 2007 میں طالبان اور آئی آر جی سی کے مابین رابطہ دفتر کے طور پر کھولا گیا تھا۔
انصر کور کی تشکیل جنرل قاسم سلیمانی نے کی تھی اور اس کی سربراہی قدس فورس کے موجودہ سربراہ اسماعیل قانی نے کی تھی تا کہ آئی آر جی سی اورطالبان تعلقات کی نگرانی اور رابطہ کاری کی جا سکے.

80 کی دہائی میں افغانستان سے فاطمی بریگیڈ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور ابتدائی طور پر اس بریگیڈ کو صدام حسین کی حکومت کے خلاف اعراق میں استعمال کیا گیا تھا. فاطمی ڈویژن آئی آر جی سی کی ایک وابستہ تنظیم ہے جو افغانی شیعوں پر مشتمل ہے۔ دمشق کے مضافاتی علاقے میں سید زینب کے مزار کے دفاع کے لئے ابتدائی طور پر اس کی تشکیل کو متحرک کیا گیا تھا۔
رفتہ رفتہ ان کی تعداد اور استطاعت کار بڑھائی گئی حتکہ یہ اس وقت شام کے میدان جنگ میں ایک اہم عنصر بن گیا ہے.

شام کے تنازعہ میں فاطمی بریگیڈ کو قدس فورس کے اسماعیل قانی کی سربراہی میں مزید وسعت دی جارہی ہے۔ اسماعیل قانی فاطمی بریگیڈ سے طویل عرصے سے رفاقت رکھتے ہیں اور کافی عرصے سے اس گروپ کی پرورش کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ 2018 میں انہوں نے ایک ایرانی وفد کے ساتھ ملک کا دورہ کیا اور صدر اشرف غنی اور اس ملک کے چیف ایگزیکٹو مسٹر عبداللہ عبد اللہ سے بات چیت کی۔
آئی آر جی سی نے افغانستان میں کسی حد تک اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے اور یہ وہاں بھی وہی ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں جو قدس فورس نے عراق میں اختیار کیا تھا اور یہ ہتھکنڈا اپنے مخالفین کو اغوا کرنے کا ہے.

عوام میں اس کی معاونت اور نظریاتی دخول کو بڑھانے کے لئے ، ایرانی خطے نے اپنے آئی آر جی سی نیٹ ورک کے ساتھ ایک ٹی وی اسٹیشن کھول دیا ہے اور باقاعدہ پروگراموں کے ذریعہ اسلامی بنیاد پرستی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں اسلامی انقلابی گارڈ کور کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے جو ملک میں تنازعہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

مظفر علی جنگ ایک سینئر صحافی، مورخ اور تجزیہ نگار ہیں. وہ عرصہ بیس سال سے اردو اور انگریزی اخبارات اور رسائل کے لیے لکھ رہے ہیں. ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے
muzaffar56@gmail.com


About

Skip to toolbar